Arshi khan

Add To collaction

ہماری کہانی भाग -5

भाग 5

’’یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔‘‘اگلے دن وہ میرے کمرے میں آیا اور ایک ڈبہ میرے آگے کیا۔

’’شکریہ!‘‘۔میں نے ڈبے کو لاپروائی سے ٹیبل پر اچھال دیا۔

’’اسے کھولو، دیکھو اور مجھے بتاو تمہیں کیسا لگا۔‘‘اس نے ایسی آواز میں کہا جو میں سننے کی عادی نہیں تھی۔

وہ ابھی ابھی شاور لے کر نکلا تھا اور اس کے لمبے گھنے بالوں کی لٹوں سے پانی ٹپ ٹپ ٹپک رہا تھا۔’’تمہیں ڈرائیر چاہیے؟ ‘‘میں نے اس کے گیلے بالوں پر طنز کیا۔

’’میرے پاس ڈرائیر ہے۔۔۔میں زیادہ یوز نہیں کرتا بال خراب ہو جاتے ہیں۔‘‘

اس کے بال ہی لڑکیوں جیسے نہیں تھے اس کی معلومات بھی لڑکیوں جیسی ہی تھی۔

اوہ! تمہیں تو کافی کچھ معلوم ہے۔دیکھو ذرا تم نے تو اپنی شرٹ کے ساتھ کا میچنگ ہیر بینڈ لگا یا ہے۔ اچھا ہوتا اگر تم بالوں کے دو پورشن کر کے ان پر پنین بھی لگا لیتے۔فیشن میں ان ہے۔‘‘

وہ چلتا ہوا میرے ڈرسینگ ٹیبل تک گیا اور میرا ہیر برش پکڑ کر بالوں کے درمیان میں سے دو پورشن کئے اور میری گلابی بٹر فلائی پنیں جن کے پر ہمہ وقت ’’ اڑان ‘‘ بھرتے لگتے تھے کو اٹھا کر دونوں طرف سامنے لگا لیا۔

اب ٹھیک ہے؟ وہ مسکرا کر پوچھ رہا تھا۔میرا دل چاہا کہ وارڈروب کھول کر اسے اپنا دوپٹہ بھی دے دوں ، بلکہ دے کیا دوں اس کے سر پر اوڑھا دوں۔پھر پاپا کے پاس لے کر جاوں کہ یہ لیں یہ آگئی آپ کی بہو۔اس کا گھونگھٹ اُٹھائیں اور دیں اسے سلامی۔

’’کھولو اسے۔۔۔‘‘بٹر فلائز اس کے گیلے بالوں میں کھڑی کھڑی اڑ رہی تھیں ۔

میں نے اسے کھولا۔ وہ ایک تصویروں کا البم تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ تصویریں تھیں۔تصویریں سب ہی اچھی تھیں لیکن ان میں کچھ عجیب تھا۔ کیا عجیب تھا مجھے غور کرنے پر بھی نظر نہیں آیا۔

یہ ایک نایاب البم کی کاپی ہے جو میں تمہارے لیے لایا ہوں۔تم بھی مجھے اپنی نایاب تصویریں بھیجتی تھی نا ۔تمہاری تصویروں کے مقابلے میں تو یہ تصویریں کچھ بھی نہیں ہیں لیکن پھر بھی تھوڑا بہت مقابلہ کر ہی رہی ہیں تمہاری تصویروں کے ساتھ۔‘‘

وہ میری تعریف کررہا تھا۔یہ اچھی بات تھی لیکن پھر بھی بات کچھ اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

ایک کے بعد ایک تصویر دیکھنے کے بعد میرے احساسات عجیب ہوتے گئے۔ ایک بوڑھے کی تابوت میں لیٹے ہوئے کی تصویر نے تو میرے ہاتھ کپکپا دئیے‘ بوڑھا خوفناک حد تک موت کے قریب لگ رہا تھا۔ ’’ یہ سب کیا ہے؟‘‘

ہاؤ ڈفر یو آر۔۔۔یہ مردوہ لوگوں کا زندہ لوگوں کے ساتھ فوٹو سیشن ہے۔

البم میرے ہاتھ سے گر گیا۔وہ میر ے لیے ایک ایسا البم لایا تھا اور اس نے میری تصویروں کو ’’ مردہ ‘‘ سے تشبیہ دی تھی۔

اس نے جھک کر البم اٹھایا تو اس کے لمبے بال فرش کو چھونے لگے۔’’ تم ایسی نایاب چیز کے لائق ہی نہیں ہو۔‘‘

ایسا کیا نایاب ہے اس میں؟

جس لڑکی نے اپنا سارا پچپن ایک درخت کے نیچے گزار دیا ہو وہ یہ کبھی نہیں جان سکتی کہ کیا نایاب ہے اس میں۔

درخت کے نیچے پچپن گزرنا کم سے کم چھوٹے کپڑے پہننے والوں کے ساتھ گزارنے سے بہتر ہے۔

کس نے پہنے چھوٹے کپڑے۔‘‘اگر وہ ذہن میں سوچ رہا تھا تو بلند آواز سے سوچ رہا تھا اور اگر وہ بول رہا تھا تو اپنا پول آپ کھول رہا تھا۔

تمہاری فرینڈز نے۔۔۔‘‘

وہ چونکا کہ میں نے اس کا ذہن کیسے پڑھ لیا۔ جبکہ اپنے ذہن کو وہ خود ہی بلند آواز سے پڑھ رہا تھا۔

ریلیکس جیک۔‘‘اس نے خود کے لیے خود کے کانوں میں سرگوشی کی جو کے سن لی گئی۔

ہونہہ۔۔۔جیک۔۔۔جیکی کہو خود کو ۔۔۔آنٹی کو تمہارا نام ہیرو پر نہیں ہیروئن پر رکھنا چاہیے۔۔۔

وہ بغور میری شکل دیکھنے لگا‘ ایسے ہی بغور دیکھتے دیکھتے وہ اپنے چہرے کو میرے چہرے کی طرف جھکا رہا تھا۔پھر اس نے اپنی انگلی اٹھائی اور میرے ناک تک لایااور اسے ناک کے قریب رکھ دیا پھر یکدم اس ایک انگلی کے ساتھ اس کی باقی چاروں انگلیاں بھی آ ملیں اور وہ پانچوں انگلیاں متحد ہو کر میرے ناک پر پڑیں اور میں وہیں فرش پر ٹھہر ہوگئی۔

’’یہ میری اس کے ساتھ آخری ملاقات ہے ۔۔۔بس میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘

* * *

کیا عمر ہے تمہاری؟

عمر؟

ہاں عمر؟ ایج؟کتنے سال کی ہو تم؟

تم کیوں پوچھ رہے ہو؟اس کی بھنویں آسمان سے باتیں کرنے کی تیاری کرنے لگیں
[10/09, 8:15 PM] Sagar Sir: part 6

’’کیونکہ تمہیں دیکھ کر یہ تو لگتا ہے کہ تم بچی نہیں ہو لیکن یہ یقین نہیں ہوتا کہ بڑی بھی ہورہی ہو۔‘‘

’’تمہیں بھی دیکھ کر یہ تولگتا ہے کہ تم بڑے ہو رہے ہو لیکن یہ یقین نہیں ہوتا کہ بڑے ہو رہے ہو یا بڑی ہو رہی ہو۔‘‘

بے اختیار میرے ہونٹ سکڑ گئے ۔اوہ یہ کیا۔۔۔ میں تو اپنا کان کھجا رہا تھا۔۔۔ کیا مصیت ہے یہ مورثی بیماریاں بھی نا۔

کانوں میں بالی، ہاتھو ں میں کنگن، ماتھے جھومر کب پہنو گے؟اس نے سر کو ترچھا کر کے پوچھا۔

افف ۔۔۔مجھے اپنا کان کاٹ ڈالنا چاہیے۔۔۔ نہیں اس کی زبان۔۔۔

یہ میری اس سے پہلی ملاقات، پہلی بات چیت تھی۔وہ ایک اچھی لڑکی ہو سکتی تھی اگر اس کی زبان اتنی نہ چلتی۔ میں بھی اس سے اچھی طرح پیش آ سکتا تھا اگر وہ مجھے ’’ جیکی یا کینڈی ‘‘ نہ کہتی۔ویسے میں نے کوئی کوشش نہیں کی کہ وہ مجھے اچھی لگے۔ میں نے یہ کوشش بھی نہیں کی کہ میں اسے اچھا لگوں۔مجھے وہ بوجھ لگتی تھی جسے اس کے پیدا ہوتے ہی میرے سر پر لاد دیا گیا ۔پچپن کی منگنی کم سے کم میرے لیے تو کسی ٹیبو سے کم نہیں ہے۔خیر۔۔۔تو جب میری انگلیاں اتحادی بن کر عین اس کی ناک پر حملہ آوار ہوئیں تو وہ فورا سے پہلے فرش پر ڈھیر ہو گئی۔اچھی اداکارہ تھی وہ۔لیکن غلط جگہ پر اپنی پرفارمنس دے رہی تھی کیونکہ نہ اس کا کمرہ اسٹیج تھا اور نہ میں تماشائی جو اس کے لیے تالیاں بجاتا حتی کہ اس کے گھر والوں نے بھی اس کے ناک آوٹ ہونے کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔کیونکہ بچے تو آپس میں لڑتے ہی رہتے ہیں اس لیے میرا پنچ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں بنا۔ ویسے مجھے سمجھ یہ نہیں آئی کہ وہ صرف ایک پنچ کھا کر دو دن بستر پر ڈھیر رہی۔وہ اتنی بیمار تھی اتنی بیمار تھی کہ بستر سے ہل نہیں سکتی تھی۔اچھا ہوتا اگر وہ ایک دن بیمار رہتی اور دوسرے دن فوت ہو جاتی۔لیکن اس کا فوت ہونے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ مجھے اس کے روم میں جانا پڑا۔ البم میرے ہاتھ میں تھا۔میں نے اس کی ہم عمر ایک لڑکی کی تصویر اسے دکھائی جو مر چکی تھی اور اپنی زندہ سہیلیوں کے ساتھ ایسے کھڑی تھی جیسے وہ خود بھی زندہ ہو۔

تم اپنی فرینڈز کو بلا کر ایسی ہی ایک تصویر لے لو۔اس سے پہلے کے تم مرجاو اور ہمیں یہ کرنا پڑے۔زندہ ہوتے تو تم نے کوئی یادگار تصویر لی نہیں کم سے کم تمہارے بستر مرگ کی تصویر یادگار ہونی چاہیے۔

ممی ۔۔۔ وہ زور سے چلائی۔

چلاو مت۔۔۔ورنہ تمہاری شکل اس قابل بھی نہیں رہے گی کہ مرنے کے بعد ہی تمہاری تصویر لی جا سکے۔

ممی ی ی ی ی ۔۔۔ وہ پھر زور سے چلائی مجبورا مجھے اس کے منہ پر تکیہ رکھنا پڑا۔میں نے تو مذاق میں تکیہ رکھا تھا میرا اسے مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔اتفاق سے مر جاتی تو الگ بات تھی بلکہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی لیکن اس نے مذاق کے بغیر میر ے بال پکڑ لیے۔ دونوں مٹھیوں میں۔ مجھے واپس جا کر اسٹیچ پلے میں حصہ لینا تھا اور اس کے لیے لمبے بال چاہیے تھے نوچے ہوئے ٹوٹے پھوٹے بال نہیں۔

ریلکیس۔۔۔ میں بڑ بڑایا اور اس سے پہلے کہ میں انگلی کو اس کی ناک تک لے جاتا اور باقی انگلیوں کو متحد کرتا‘ میرا دوست مجھے ڈھونڈتا ہوا کمرے میں آگیا اور ریسلنگ کا ایسا شانداز مظاہرہ دیکھ کر جہاں کھڑا تھا وہیں جامد ہو گیا۔

’’ڈبلیو ڈبلیوجیک۔۔۔ واو۔۔۔‘‘رائن جوش سے چلایا۔

رائن کے جوش نے اُس میں اور جوش بھر دیا اوراس نے میرے بالوں کو ایک اور زور دار جھٹکا دیا اور آسمان سے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر میری آنکھوں کے آگے آکر کودنے پھاندنے لگے۔میں نے چیخ ماری‘ رائن نے کمرے کی طرف دوڑ لگائی اور واپسی میں وہ اپنے ساتھ کیمرہ لیتا آیا اور ڈبلیو ڈبلیو جیک کی فلم بندی کرنے لگا۔

بند کرو کیمرہ رائن۔۔۔جیسے ہی میں چلایا عروہ نے اور شدت سے میرے بال اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیے۔

تم مووی بناو رائن۔۔۔وہ بھی چلائی اور اس کی میرے بال کھینچنے کے انداز میں اور شدت آگئی۔جیسے ماما اکثر پاپا کی کسی بہت ہی گندی شرٹ کو غصے میں ہاتھ سے مل مل کر دھوتی ہیں‘ ایسے ہی وہ میرے سر کو بالوں سے پکڑ کر’ مل مل ‘‘ کر ’’ رگڑ رگڑ ‘‘ کر دھو رہی تھی۔

آنٹی۔۔۔‘‘ اب مجھے یہ چلانا پڑا۔’’ آنٹی ی ی ی ی ۔۔۔

تکیہ اس کے منہ پر رہا اور میرے بال اس کے ہاتھ میں۔ بعد میں تکیہ فرش پر پڑا رہا اوراس کے ہاتھوں سے میرے سر کے جنگل کی کٹائی ہو تی رہی ۔

’’یہ کیا کیا تم نے عروہ۔‘‘ آنٹی نے میرے بالوں کو جڑوں سمیت عروہ کی مٹھیوں سے بر آمد کیا۔

میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھتا چلا گیا اور ایسے کراہنے لگا جیسے مشین گن کے سارے راونڈ میرے سر پر خالی کر دئیے گئے ہوں۔

اوہ جیک۔۔۔ ادھر آؤ بیٹا۔۔۔معاف کر دو عروہ کو۔۔۔یہ ایسے ہی پاگل ہو جاتی ہے غصے میں۔۔۔

’’اس نے تکیہ میرے منہ پر رکھ دیا تھا یہ مجھے مارر ہا تھا۔‘‘مجھے دیکھ کر عروہ بھی کراہنے لگی بلکہ باقاعدہ رونے لگی۔

آنٹی بدستور میرا سر سہلاتی رہیں۔’’ تم نے اسے مار ہی کیوں نہیں دیا بیٹا۔‘‘ آنٹی مجھ سے

   5
2 Comments

Seema Priyadarshini sahay

02-Oct-2021 10:32 PM

Nice

Reply

prashant pandey

15-Sep-2021 03:09 AM

👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻

Reply